پھر ہم کہتے ہیں کہ شوگر کیوں ہوتی ہے؟

ہم اکثر حیران ہوتے ہیں کہ شوگر (ذیابیطس) آخر کیوں ہو جاتی ہے؟ ایک دن اچانک ٹیسٹ کرواتے ہیں اور رپورٹ میں شوگر آ جاتی ہے، پھر ہم کہتے ہیں “پتہ نہیں یہ کب ہو گئی؟” اصل میں ذیابیطس کوئی اچانک آنے والی بیماری نہیں، بلکہ یہ ایک خاموش دشمن ہے جو برسوں کی بے احتیاطی، غیر متوازن طرزِ زندگی، اور غلط خوراک کی بنیاد پر پنپتی ہے۔ صبح کا ناشتہ چھوڑنا، دن بھر بیٹھے بیٹھے کام کرنا، پانی کی کمی، نیند کی کمی، اور مسلسل ذہنی دباؤ جیسے معمولات آہستہ آہستہ جسم کے انسولین سسٹم کو کمزور کر دیتے ہیں۔آج کل کے فاسٹ فوڈ، چینی سے بھرپور مشروبات، اور پیکنگ والے کھانوں نے جسمانی نظام کو تباہ کر دیا ہے۔ لوگ خود کو ‘مصروف’ سمجھ کر اپنی صحت پر توجہ دینا چھوڑ دیتے ہیں۔ شوگر کی بڑی وجوہات میں موروثیت کے ساتھ ساتھ طرزِ زندگی سب سے بڑا مجرم ہے۔ جب جسم میں چکنائی اور شوگر جمع ہونے لگے اور حرکت کم ہو جائے تو انسولین مزاحمت بڑھ جاتی ہے، یہی مزاحمت ذیابیطس کی شروعات ہے۔پھر ہم کہتے ہیں کہ شوگر کیوں ہوتی ہے؟ اصل میں جواب ہمارے طرزِ زندگی میں چھپا ہے۔ وقت پر سونا، تازہ غذا کھانا، چہل قدمی کرنا، اور پانی پینا جیسے معمولات کو اپنا کر ہم نہ صرف شوگر سے بچ سکتے ہیں بلکہ ایک صحت مند زندگی بھی گزار سکتے ہیں۔ یاد رکھیں، شوگر سے بچاؤ علاج سے زیادہ آسان ہے۔ پھر ہم کہتے ہیں کہ شوگر کیوں ہوتی ہے؟ – طرز زندگی کی بڑی غلطی ہم روزمرہ زندگی میں بہت سی غلطیاں کرتے ہیں اور پھر ہم کہتے ہیں کہ شوگر کیوں ہوتی ہے؟ سب سے بڑی غلطی ہمارا سست طرزِ زندگی ہے۔ جسمانی سرگرمی کی کمی انسولین کے نظام کو متاثر کرتی ہے۔ کھانے کے بعد آرام کرنا، پیدل نہ چلنا اور مسلسل بیٹھے رہنا نظام ہضم کو سست کر دیتا ہے۔ اس سے خون میں شکر کی سطح بڑھنے لگتی ہے۔ آہستہ آہستہ یہ عمل شوگر کی ابتدا بن جاتا ہے۔ ہم وقت پر سونا بھول جاتے ہیں۔ نیند کی کمی سے ہارمونی توازن بگڑتا ہے۔ شوگر کے خطرات چھپے رہتے ہیں۔ ہم جانتے بھی نہیں اور بیماری بڑھتی رہتی ہے۔ اگر روزانہ چہل قدمی کی جائے، بروقت نیند لی جائے اور صحت مند غذا استعمال ہو تو بہتری ممکن ہے۔ جب تک ہم اپنی روزمرہ عادات پر توجہ نہیں دیں گے، تب تک یہ سوال باقی رہے گا کہ پھر ہم کہتے ہیں کہ شوگر کیوں ہوتی ہے؟ پراسیسڈ کھانے اور مٹھائیاں – شوگر کا بنیادی سبب پراسیسڈ کھانے اور مٹھائیاں ذیابیطس کی جڑ ہیں۔ ان میں شکر اور کیمیکل کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ اکثر افراد روزانہ ان اشیاء کا استعمال کرتے ہیں۔ چاکلیٹ، بسکٹ، کولڈ ڈرنک اور کیک کا استعمال خون میں گلوکوز کو بڑھا دیتا ہے۔ انسولین بار بار زیادہ مقدار میں خارج ہوتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب جسم انسولین پر ردعمل دینا بند کر دیتا ہے۔ یہ حالت انسولین ریزسٹنس کہلاتی ہے۔ اسی سے شوگر کا آغاز ہوتا ہے۔ ہم اکثر بے خبری میں ان اشیاء کا استعمال جاری رکھتے ہیں۔ ہمیں ان کی تباہ کاری کا اندازہ نہیں ہوتا۔ اگر ہم قدرتی غذاؤں کی طرف لوٹ آئیں، میٹھے پھل کھائیں اور مصنوعی اشیاء سے پرہیز کریں تو بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔ شوگر کی جڑیں ہماری پلیٹ میں چھپی ہوتی ہیں۔ اگر ہم خود کو شعور دیں تو شوگر کو روکا جا سکتا ہے۔ جسمانی سرگرمی کی کمی – خاموش خطرہ بیٹھے بیٹھے کام کرنے والے افراد شوگر کے زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ جسمانی سرگرمی خون میں شکر کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ جب ہم حرکت نہیں کرتے، تو گلوکوز خلیات میں جذب نہیں ہو پاتا۔ اس سے خون میں شکر کی مقدار بڑھنے لگتی ہے۔ دن بھر سکرین کے سامنے بیٹھنا، ورزش نہ کرنا، اور گاڑی پر ہر جگہ جانا شوگر کو دعوت دینا ہے۔ جسمانی سرگرمی صرف وزن کم کرنے کے لیے نہیں، بلکہ شوگر کنٹرول کرنے کے لیے بھی ضروری ہے۔ اگر روزانہ تیس منٹ چہل قدمی کی جائے، سیڑھیاں استعمال کی جائیں اور جسم متحرک رکھا جائے تو فائدہ ہوتا ہے۔ شوگر کے مریضوں کے لیے بھی ورزش نجات کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ یہ انسولین کی کارکردگی کو بہتر بناتی ہے۔ جسمانی حرکت کے بغیر صحت کا تصور ممکن نہیں۔ ہمیں یہ حقیقت جلد سمجھنی ہو گی۔ پھر ہم کہتے ہیں کہ شوگر کیوں ہوتی ہے؟ – ذہنی دباؤ بھی ایک وجہ روزمرہ زندگی کا ذہنی دباؤ صحت پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ ہم ہر وقت کسی نہ کسی ٹینشن میں رہتے ہیں۔ دفتر، گھر، مالی حالات اور تعلقات کا دباؤ ہمارے جسمانی نظام کو متاثر کرتا ہے۔ جب ہم مسلسل دباؤ میں رہتے ہیں تو کورٹیسول ہارمون بڑھ جاتا ہے۔ یہ ہارمون انسولین کے عمل میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ اس کے نتیجے میں خون میں شکر کی مقدار بڑھنے لگتی ہے۔ آہستہ آہستہ یہ شوگر کا آغاز بنتی ہے۔ ہم اس کیفیت کو عام سمجھتے ہیں اور علاج نہیں کرتے۔ پھر ہم کہتے ہیں کہ شوگر کیوں ہوتی ہے؟ اگر ہم اپنے ذہنی دباؤ کو کم کریں، نماز پڑھیں، یوگا کریں یا سیر کا معمول اپنائیں تو بہتری آ سکتی ہے۔ مثبت سوچ اور سکون دل کے ساتھ زندگی گزارنے سے جسمانی نظام متوازن رہتا ہے۔ ہمیں اس پہلو کو سنجیدگی سے لینا ہو گا۔ نیند کی کمی – ایک نظر انداز شدہ مجرم اکثر افراد نیند کو غیر اہم سمجھتے ہیں۔ دیر رات سونا، موبائل استعمال کرنا اور ذہنی انتشار نیند کو متاثر کرتا ہے۔ جب نیند مکمل نہ ہو، تو انسولین کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ جسم میں موجود شکر کو صحیح طریقے سے استعمال نہیں کیا جاتا۔ اس سے شوگر کی ابتدا ہوتی ہے۔ نیند کی کمی قوت مدافعت کو بھی کمزور کرتی ہے۔ تھکاوٹ اور چڑچڑاپن بڑھ جاتا ہے۔ جب دماغ اور جسم تھکے ہوں تو وہ انسولین پر صحیح ردعمل نہیں دیتے۔ ہم یہ عمل روز دہراتے ہیں اور پھر حیران ہوتے ہیں کہ شوگر کیوں ہو گئی؟ اصل میں نیند ایک قدرتی دوا ہے۔ وقت پر سونا، گہری نیند لینا اور سونے سے پہلے سکرین کا…

Read More