ہم اکثر حیران ہوتے ہیں کہ شوگر (ذیابیطس) آخر کیوں ہو جاتی ہے؟ ایک دن اچانک ٹیسٹ کرواتے ہیں اور رپورٹ میں شوگر آ جاتی ہے، پھر ہم کہتے ہیں “پتہ نہیں یہ کب ہو گئی؟” اصل میں ذیابیطس کوئی اچانک آنے والی بیماری نہیں، بلکہ یہ ایک خاموش دشمن ہے جو برسوں کی بے احتیاطی، غیر متوازن طرزِ زندگی، اور غلط خوراک کی بنیاد پر پنپتی ہے۔ صبح کا ناشتہ چھوڑنا، دن بھر بیٹھے بیٹھے کام کرنا، پانی کی کمی، نیند کی کمی، اور مسلسل ذہنی دباؤ جیسے معمولات آہستہ آہستہ جسم کے انسولین سسٹم کو کمزور کر دیتے ہیں۔
آج کل کے فاسٹ فوڈ، چینی سے بھرپور مشروبات، اور پیکنگ والے کھانوں نے جسمانی نظام کو تباہ کر دیا ہے۔ لوگ خود کو ‘مصروف’ سمجھ کر اپنی صحت پر توجہ دینا چھوڑ دیتے ہیں۔ شوگر کی بڑی وجوہات میں موروثیت کے ساتھ ساتھ طرزِ زندگی سب سے بڑا مجرم ہے۔ جب جسم میں چکنائی اور شوگر جمع ہونے لگے اور حرکت کم ہو جائے تو انسولین مزاحمت بڑھ جاتی ہے، یہی مزاحمت ذیابیطس کی شروعات ہے۔
پھر ہم کہتے ہیں کہ شوگر کیوں ہوتی ہے؟ اصل میں جواب ہمارے طرزِ زندگی میں چھپا ہے۔ وقت پر سونا، تازہ غذا کھانا، چہل قدمی کرنا، اور پانی پینا جیسے معمولات کو اپنا کر ہم نہ صرف شوگر سے بچ سکتے ہیں بلکہ ایک صحت مند زندگی بھی گزار سکتے ہیں۔ یاد رکھیں، شوگر سے بچاؤ علاج سے زیادہ آسان ہے۔
پھر ہم کہتے ہیں کہ شوگر کیوں ہوتی ہے؟ – طرز زندگی کی بڑی غلطی
ہم روزمرہ زندگی میں بہت سی غلطیاں کرتے ہیں اور پھر ہم کہتے ہیں کہ شوگر کیوں ہوتی ہے؟ سب سے بڑی غلطی ہمارا سست طرزِ زندگی ہے۔ جسمانی سرگرمی کی کمی انسولین کے نظام کو متاثر کرتی ہے۔ کھانے کے بعد آرام کرنا، پیدل نہ چلنا اور مسلسل بیٹھے رہنا نظام ہضم کو سست کر دیتا ہے۔ اس سے خون میں شکر کی سطح بڑھنے لگتی ہے۔ آہستہ آہستہ یہ عمل شوگر کی ابتدا بن جاتا ہے۔ ہم وقت پر سونا بھول جاتے ہیں۔ نیند کی کمی سے ہارمونی توازن بگڑتا ہے۔ شوگر کے خطرات چھپے رہتے ہیں۔ ہم جانتے بھی نہیں اور بیماری بڑھتی رہتی ہے۔ اگر روزانہ چہل قدمی کی جائے، بروقت نیند لی جائے اور صحت مند غذا استعمال ہو تو بہتری ممکن ہے۔ جب تک ہم اپنی روزمرہ عادات پر توجہ نہیں دیں گے، تب تک یہ سوال باقی رہے گا کہ پھر ہم کہتے ہیں کہ شوگر کیوں ہوتی ہے؟
پراسیسڈ کھانے اور مٹھائیاں – شوگر کا بنیادی سبب
پراسیسڈ کھانے اور مٹھائیاں ذیابیطس کی جڑ ہیں۔ ان میں شکر اور کیمیکل کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ اکثر افراد روزانہ ان اشیاء کا استعمال کرتے ہیں۔ چاکلیٹ، بسکٹ، کولڈ ڈرنک اور کیک کا استعمال خون میں گلوکوز کو بڑھا دیتا ہے۔ انسولین بار بار زیادہ مقدار میں خارج ہوتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب جسم انسولین پر ردعمل دینا بند کر دیتا ہے۔ یہ حالت انسولین ریزسٹنس کہلاتی ہے۔ اسی سے شوگر کا آغاز ہوتا ہے۔ ہم اکثر بے خبری میں ان اشیاء کا استعمال جاری رکھتے ہیں۔ ہمیں ان کی تباہ کاری کا اندازہ نہیں ہوتا۔ اگر ہم قدرتی غذاؤں کی طرف لوٹ آئیں، میٹھے پھل کھائیں اور مصنوعی اشیاء سے پرہیز کریں تو بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔ شوگر کی جڑیں ہماری پلیٹ میں چھپی ہوتی ہیں۔ اگر ہم خود کو شعور دیں تو شوگر کو روکا جا سکتا ہے۔
جسمانی سرگرمی کی کمی – خاموش خطرہ
بیٹھے بیٹھے کام کرنے والے افراد شوگر کے زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ جسمانی سرگرمی خون میں شکر کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ جب ہم حرکت نہیں کرتے، تو گلوکوز خلیات میں جذب نہیں ہو پاتا۔ اس سے خون میں شکر کی مقدار بڑھنے لگتی ہے۔ دن بھر سکرین کے سامنے بیٹھنا، ورزش نہ کرنا، اور گاڑی پر ہر جگہ جانا شوگر کو دعوت دینا ہے۔ جسمانی سرگرمی صرف وزن کم کرنے کے لیے نہیں، بلکہ شوگر کنٹرول کرنے کے لیے بھی ضروری ہے۔ اگر روزانہ تیس منٹ چہل قدمی کی جائے، سیڑھیاں استعمال کی جائیں اور جسم متحرک رکھا جائے تو فائدہ ہوتا ہے۔ شوگر کے مریضوں کے لیے بھی ورزش نجات کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ یہ انسولین کی کارکردگی کو بہتر بناتی ہے۔ جسمانی حرکت کے بغیر صحت کا تصور ممکن نہیں۔ ہمیں یہ حقیقت جلد سمجھنی ہو گی۔
پھر ہم کہتے ہیں کہ شوگر کیوں ہوتی ہے؟ – ذہنی دباؤ بھی ایک وجہ
روزمرہ زندگی کا ذہنی دباؤ صحت پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ ہم ہر وقت کسی نہ کسی ٹینشن میں رہتے ہیں۔ دفتر، گھر، مالی حالات اور تعلقات کا دباؤ ہمارے جسمانی نظام کو متاثر کرتا ہے۔ جب ہم مسلسل دباؤ میں رہتے ہیں تو کورٹیسول ہارمون بڑھ جاتا ہے۔ یہ ہارمون انسولین کے عمل میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ اس کے نتیجے میں خون میں شکر کی مقدار بڑھنے لگتی ہے۔ آہستہ آہستہ یہ شوگر کا آغاز بنتی ہے۔ ہم اس کیفیت کو عام سمجھتے ہیں اور علاج نہیں کرتے۔ پھر ہم کہتے ہیں کہ شوگر کیوں ہوتی ہے؟ اگر ہم اپنے ذہنی دباؤ کو کم کریں، نماز پڑھیں، یوگا کریں یا سیر کا معمول اپنائیں تو بہتری آ سکتی ہے۔ مثبت سوچ اور سکون دل کے ساتھ زندگی گزارنے سے جسمانی نظام متوازن رہتا ہے۔ ہمیں اس پہلو کو سنجیدگی سے لینا ہو گا۔
نیند کی کمی – ایک نظر انداز شدہ مجرم
اکثر افراد نیند کو غیر اہم سمجھتے ہیں۔ دیر رات سونا، موبائل استعمال کرنا اور ذہنی انتشار نیند کو متاثر کرتا ہے۔ جب نیند مکمل نہ ہو، تو انسولین کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ جسم میں موجود شکر کو صحیح طریقے سے استعمال نہیں کیا جاتا۔ اس سے شوگر کی ابتدا ہوتی ہے۔ نیند کی کمی قوت مدافعت کو بھی کمزور کرتی ہے۔ تھکاوٹ اور چڑچڑاپن بڑھ جاتا ہے۔ جب دماغ اور جسم تھکے ہوں تو وہ انسولین پر صحیح ردعمل نہیں دیتے۔ ہم یہ عمل روز دہراتے ہیں اور پھر حیران ہوتے ہیں کہ شوگر کیوں ہو گئی؟ اصل میں نیند ایک قدرتی دوا ہے۔ وقت پر سونا، گہری نیند لینا اور سونے سے پہلے سکرین کا استعمال بند کرنا شوگر سے بچاتا ہے۔ جسم کو آرام دینا ضروری ہے۔ ہمیں نیند کو معمولی چیز نہیں سمجھنا چاہیے۔
میٹابولزم کی سستی رفتار بھی شوگر کا باعث
میٹابولزم اگر سست ہو جائے تو جسم گلوکوز کو صحیح استعمال نہیں کرتا۔ یہ عمل شکر کو خون میں بڑھاتا ہے۔ ہمارا جسم توانائی کو جلدی نہیں جلاتا۔ یہی وجہ شوگر کی بنیاد بنتی ہے۔ سست میٹابولزم والے افراد کا وزن بڑھتا ہے۔ وزن بڑھنے سے انسولین ریزسٹنس پیدا ہوتی ہے۔ یہی حالت ذیابیطس کو جنم دیتی ہے۔ اکثر افراد کی خوراک زیادہ اور حرکت کم ہوتی ہے۔ یہ عادتیں میٹابولزم کو مزید سست کر دیتی ہیں۔ تھائرائیڈ کے مسائل بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر ہم اپنی خوراک متوازن رکھیں تو بہتری ممکن ہے۔ تیز میٹابولزم کے لیے پانی، پروٹین، اور ورزش ضروری ہیں۔ ہر کھانے میں فائبر شامل کریں۔ پراسیسڈ فوڈ سے مکمل پرہیز کریں۔ جب ہم میٹابولزم کو نظر انداز کرتے ہیں، تو پھر شوگر کا سوال جنم لیتا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے جسم کو متحرک رکھنا ضروری ہے۔
پھر ہم کہتے ہیں کہ شوگر کیوں ہوتی ہے؟ – پانی کی کمی
اکثر افراد پورا دن پانی پینا بھول جاتے ہیں۔ جسم میں پانی کی کمی گلوکوز کو گاڑھا کر دیتی ہے۔ خون میں شکر کی سطح بڑھنے لگتی ہے۔ گردے متاثر ہوتے ہیں۔ انسولین کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ نتیجہ: شوگر کی ابتدا ہو جاتی ہے۔ ہم چائے، کافی یا مشروبات کو پانی سمجھتے ہیں۔ مگر یہ غلطی ہے۔ اصل پانی کی ضرورت پوری نہیں ہوتی۔ جب جسم ڈی ہائیڈریٹ ہو تو توانائی بھی کم ہوتی ہے۔ اس سے میٹابولزم سست ہو جاتا ہے۔ پانی کے بغیر جسم کی صفائی بھی رک جاتی ہے۔ شوگر کے مریضوں کے لیے پانی خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ہمیں دن میں آٹھ گلاس پانی لازمی پینا چاہیے۔ اگر ہم یہ عادت نہ اپنائیں تو پھر ہم کہتے ہیں کہ شوگر کیوں ہوتی ہے؟ پانی کا استعمال جتنا بڑھایا جائے، شوگر کے امکانات اتنے کم ہو جاتے ہیں۔
موروثی عوامل سے غافل نہ رہیں
شوگر ایک موروثی بیماری بھی ہو سکتی ہے۔ اگر والدین یا قریبی رشتہ داروں کو شوگر ہو، تو خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ مگر یہ ضروری نہیں کہ موروثی ہو تو بیماری لازمی ہو۔ احتیاطی تدابیر سے شوگر کو روکا جا سکتا ہے۔ اگر وقت پر ٹیسٹ کرائیں، صحت مند عادات اپنائیں، اور وزن قابو میں رکھیں تو موروثی اثر کم ہو سکتا ہے۔ اکثر افراد یہ جاننے کے باوجود احتیاط نہیں کرتے۔ وہ اپنی تاریخ کو اہمیت نہیں دیتے۔ یہی لاپروائی بیماری کو قریب لے آتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چونکہ ہمیں اب تک کچھ نہیں ہوا، تو آگے بھی کچھ نہیں ہوگا۔ مگر یہ سوچ نقصان دہ ہے۔ اگر گھر میں کسی کو شوگر ہے، تو باقاعدہ چیک اپ کروانا ضروری ہے۔ صحت مند طرز زندگی اپنانا لازمی ہے۔ وراثت کو تقدیر نہ سمجھیں، بلکہ چیلنج سمجھ کر اس سے بچاؤ کریں۔
پھر ہم کہتے ہیں کہ شوگر کیوں ہوتی ہے؟ – موٹاپا خطرناک ہے
موٹاپا شوگر کے خطرے کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ زیادہ چربی انسولین پر دباؤ ڈالتی ہے۔ جسم کی خلیات انسولین کے لیے حساس نہیں رہتے۔ یہ حالت انسولین ریزسٹنس کہلاتی ہے۔ نتیجہ شوگر کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ ہم وزن بڑھنے کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صرف جسم بھاری ہوا ہے۔ مگر اندرونی نظام متاثر ہو چکا ہوتا ہے۔ پیٹ کے اردگرد چربی سب سے خطرناک مانی جاتی ہے۔ یہ چربی شکر کے استعمال کو روکتی ہے۔ ورزش، متوازن خوراک، اور نیند موٹاپے سے نجات کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ اگر وزن قابو میں نہ رکھا جائے تو شوگر یقینی ہے۔ ہم پھر یہی سوال کرتے ہیں کہ شوگر کیوں ہوتی ہے؟ جواب واضح ہے: موٹاپا خطرے کی گھنٹی ہے۔ اسے سنجیدگی سے نہ لینا خود کو بیماری کے حوالے کرنا ہے۔
مصنوعی مشروبات – شکر کا زہر
بازار میں دستیاب میٹھے مشروبات ہماری صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ان میں چینی کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اکثر افراد دن میں کئی بار یہ مشروبات پیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تھوڑی مقدار نقصان نہیں دے گی۔ مگر مستقل استعمال جسم میں شکر جمع کر دیتا ہے۔ انسولین پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ شوگر جنم لیتی ہے۔ سافٹ ڈرنکس، انرجی ڈرنکس، اور فلیورڈ جوسز سے بچنا ضروری ہے۔ ان کی جگہ تازہ پانی، لیموں پانی یا قدرتی جوس اپنائیں۔ بچوں کو ان مشروبات کی عادت نہ ڈالیں۔ شوگر کے خطرات خاموشی سے بڑھتے ہیں۔ جب ہم ہوش میں آتے ہیں، تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اگر ہم روزانہ کی عادات کو بدلیں تو شوگر سے بچ سکتے ہیں۔ ان مشروبات کو ترک کرنا پہلا قدم ہے۔
ورزش چھوڑ دینا – صحت سے بے وفائی
جب ہم ورزش چھوڑ دیتے ہیں تو جسم کا نظام سست ہو جاتا ہے۔ گلوکوز استعمال نہیں ہوتا۔ شوگر بڑھنے لگتی ہے۔ ورزش خون میں شکر کی سطح کو قابو میں رکھتی ہے۔ روزانہ کی چہل قدمی بھی فائدہ مند ہوتی ہے۔ ہم اکثر مصروفیت کا بہانہ بناتے ہیں۔ وقت کی کمی کا رونا روتے ہیں۔ مگر صحت کے لیے وقت نکالنا ضروری ہے۔ دن میں صرف تیس منٹ کی چہل قدمی بھی بہتری لا سکتی ہے۔ جو افراد حرکت نہیں کرتے، وہ شوگر کے زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ ورزش کے بغیر جسم کا دفاعی نظام بھی کمزور ہو جاتا ہے۔ انسولین کی کارکردگی کم ہو جاتی ہے۔ اگر ہم روزانہ ورزش کا معمول اپنائیں تو بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔ صحت کی حفاظت خود ہمارا فرض ہے۔
پھر ہم کہتے ہیں کہ شوگر کیوں ہوتی ہے؟ – ناقص غذا کا کردار
ہم جو کچھ کھاتے ہیں، وہی ہماری صحت کو بناتا ہے یا بگاڑتا ہے۔ ناقص اور تلی ہوئی غذا شوگر کو بڑھا سکتی ہے۔ چکنائی، چینی اور نمک سے بھرپور خوراک جسم پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ انسولین کا نظام متاثر ہوتا ہے۔ اکثر لوگ بازار کے کھانوں پر انحصار کرتے ہیں۔ گھر کی پکی غذا کو پرانا سمجھتے ہیں۔ یہی سوچ بیماری کی بنیاد بن جاتی ہے۔ اگر ہم فائبر سے بھرپور، تازہ اور قدرتی غذا کھائیں تو شوگر سے بچ سکتے ہیں۔ ہر کھانے میں سبزی، پھل اور دالیں شامل کریں۔ تلے ہوئے کھانے ترک کریں۔ باہر کے کھانے کم کریں۔ جب ہم سوچتے ہیں کہ پھر شوگر کیوں ہو گئی، تو جواب ہماری پلیٹ میں چھپا ہوتا ہے۔ صرف نیت اور شعور کی ضرورت ہے۔
بے وقت کھانے کی عادت
بعض افراد دن میں بار بار کچھ نہ کچھ کھاتے رہتے ہیں۔ یہ عادت انسولین کو بار بار متحرک کرتی ہے۔ شکر مسلسل خون میں گردش کرنے لگتی ہے۔ یہ عمل انسولین ریزسٹنس پیدا کرتا ہے۔ نتیجہ: شوگر کی شروعات۔ ہمیں کھانے کا ایک باقاعدہ شیڈول بنانا چاہیے۔ ناشتہ، دوپہر اور رات کے کھانے کے بیچ مناسب وقفہ ہو۔ بے وقت سنیکس، چپس، یا میٹھا کھانے سے پرہیز کریں۔ رات دیر سے کھانا بھی نقصان دہ ہوتا ہے۔ اگر ہم کھانے کے اوقات کو منظم کریں تو جسم بہتر کام کرتا ہے۔ انسولین متوازن رہتا ہے۔ شوگر کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ وقت پر کھانا صحت مند طرز زندگی کی بنیاد ہے۔ اسے معمولی نہ سمجھیں۔
پھر ہم کہتے ہیں کہ شوگر کیوں ہوتی ہے؟ – تناؤ بھرے تعلقات
ذہنی دباؤ صرف کام سے نہیں، رشتوں سے بھی آتا ہے۔ گھریلو جھگڑے، جذباتی تنازعات اور بے سکونی جسم پر اثر ڈالتی ہے۔ یہ سب کورٹیسول ہارمون کو بڑھاتا ہے۔ یہی ہارمون شوگر کی راہ ہموار کرتا ہے۔ ہم دل کی باتوں کو دبائے رکھتے ہیں۔ اندر ہی اندر گھٹتے ہیں۔ یہ جذباتی بوجھ جسمانی بیماری بن جاتا ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ بس یہ ذاتی مسئلہ ہے۔ مگر اصل میں ہر بات جسم پر اثر ڈالتی ہے۔ مثبت سوچ، دل کی صفائی اور سکون والی زندگی شوگر سے بچاتی ہے۔ اگر رشتے سنوارے جائیں، برداشت اور گفتگو کو اپنایا جائے تو ذہنی دباؤ کم ہو جاتا ہے۔ ہم جب کہتے ہیں کہ شوگر کیوں ہو گئی، تو دل کے بوجھ کو بھی دیکھنا چاہیے۔
تناؤ میں نیند کی کمی شوگر کو بڑھا دیتی ہے
جب ذہنی تناؤ ہو اور نیند بھی پوری نہ ہو تو جسم کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ ہم روز رات کو دیر سے سوتے ہیں۔ صبح جلدی اٹھنا مجبوری بن چکا ہے۔ نیند کی یہ کمی انسولین کے عمل میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔ شکر خلیات میں جذب نہیں ہو پاتی۔ یہی حالت شوگر کا آغاز بن جاتی ہے۔ نیند کے بغیر جسم تھکا رہتا ہے۔ ہم دن بھر چائے، کافی یا میٹھا کھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہی مسلسل دباؤ اور کم نیند شوگر کو بڑھاتے ہیں۔ اگر ہم روزمرہ معمولات بہتر کریں، وقت پر سونا اپنائیں تو تندرستی لوٹ سکتی ہے۔ ہمیں نیند کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا۔ یہ محض آرام نہیں، جسمانی بحالی کا ذریعہ ہے۔ شوگر سے بچنے کے لیے نیند کو اہمیت دینا ضروری ہے۔
پھر ہم کہتے ہیں کہ شوگر کیوں ہوتی ہے؟ – بیٹھ کر کام کرنا
دن بھر کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے رہنا ہماری صحت کو دیمک کی طرح کھا جاتا ہے۔ جسمانی حرکت نہ ہونے کی وجہ سے گلوکوز خون میں رہ جاتا ہے۔ انسولین کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ یہ عادت شوگر کو جنم دیتی ہے۔ ہم دن بھر کرسی پر کام کرتے ہیں، کھانے کے فوراً بعد بیٹھ جاتے ہیں، اور پھر کہتے ہیں کہ شوگر کیوں ہوتی ہے؟ اصل میں حرکت زندگی ہے۔ ہر گھنٹے بعد تھوڑی چہل قدمی کریں۔ سیڑھیاں چڑھیں۔ دفتر میں بھی حرکت کا معمول رکھیں۔ مسلسل بیٹھنا جسم کو کاہل بنا دیتا ہے۔ شوگر سے بچنے کے لیے حرکت ضروری ہے۔ کام کے دوران جسم کو موقع دیں کہ وہ گلوکوز کو استعمال کر سکے۔ یہی چھوٹے قدم بڑی بیماریوں سے بچا سکتے ہیں۔
خاندانی لاپرواہی بیماری کو دعوت دیتی ہے
بعض گھرانوں میں صحت کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ نہ ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں، نہ علامات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ شوگر جیسے مرض کو روایتی انداز سے نظر انداز کیا جاتا ہے۔ یہی لاپرواہی بیماری کو جڑ پکڑنے کا موقع دیتی ہے۔ اگر خاندان میں کسی کو شوگر ہو، تو احتیاطی تدابیر لازمی ہیں۔ وقت پر شوگر چیک کریں، روزمرہ عادات بہتر کریں۔ صحت پر بات چیت کو عام بنائیں۔ نئی نسل کو تعلیم دیں۔ جب پورا خاندان آگاہ ہو تو بیماری کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ ورنہ شوگر خاموشی سے ہر نسل میں منتقل ہو جاتی ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ لاپرواہی خطرناک ہے۔
کم فائبر والی خوراک – انسولین کی دشمن
فائبر والی خوراک گلوکوز کے جذب ہونے کی رفتار کو کم کرتی ہے۔ جب خوراک میں فائبر کم ہو تو شکر جلدی خون میں شامل ہو جاتی ہے۔ انسولین پر فوری دباؤ پڑتا ہے۔ یہ دباؤ مستقل رہے تو انسولین ریزسٹنس پیدا ہوتی ہے۔ نتیجہ شوگر کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ ہم سفید آٹے، چاول اور بغیر چھلکے والے پھل کھاتے ہیں۔ ان میں فائبر نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ہمیں دالیں، سبزیاں، پھل، اور چھلکوں والے اناج کو خوراک میں شامل کرنا چاہیے۔ فائبر نظام ہضم کو بہتر کرتا ہے۔ پیٹ بھرنے کا احساس دیتا ہے۔ اس سے غیر ضروری کھانے کی خواہش کم ہوتی ہے۔ فائبر کو نظر انداز کرنا انسولین کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔
پھر ہم کہتے ہیں کہ شوگر کیوں ہوتی ہے؟ – سگریٹ اور تمباکو
سگریٹ نوشی انسولین کے اثر کو کمزور کرتی ہے۔ تمباکو کا استعمال خون کی نالیوں کو تنگ کر دیتا ہے۔ اس سے شوگر کی پیچیدگیاں بڑھ جاتی ہیں۔ سگریٹ پینے والے افراد میں ذیابیطس کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ تمباکو انسولین کی حساسیت کو کم کرتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ صرف پھیپھڑوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شوگر بھی اس سے شدید متاثر ہوتی ہے۔ اگر ہم تمباکو نوشی ترک کر دیں، صحت مند عادات اپنائیں، تو شوگر کے خطرے سے بچ سکتے ہیں۔ پھر یہ سوال نہیں کرنا پڑے گا کہ شوگر کیوں ہو گئی؟
درد کش ادویات کا مستقل استعمال
کچھ افراد بغیر نسخے کے مسلسل درد کش ادویات لیتے ہیں۔ ان کا طویل استعمال جگر اور گردوں کو متاثر کرتا ہے۔ یہ اعضا انسولین کے عمل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جب یہ متاثر ہوں تو شوگر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ادویات میں موجود کیمیکل خون میں گلوکوز کی مقدار کو بڑھاتے ہیں۔ اکثر افراد ان گولیوں کو معمول سمجھ کر کھاتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ دوا صرف ضرورت کے تحت اور ڈاکٹر کے مشورے سے لیں۔ غیر ضروری دوا شوگر جیسے مرض کو دعوت دیتی ہے۔
پھر ہم کہتے ہیں کہ شوگر کیوں ہوتی ہے؟ – کھانے میں نمک کا زیادہ استعمال
اگرچہ نمک کا تعلق براہِ راست شوگر سے نہیں، مگر زیادہ نمک بلڈ پریشر کو بڑھاتا ہے۔ یہ شوگر کی پیچیدگیوں کو بڑھا دیتا ہے۔ نمک جسم میں پانی روک لیتا ہے۔ اس سے انسولین پر دباؤ بڑھتا ہے۔ ہم ہر کھانے میں نمک کا اضافہ کرتے ہیں۔ چپس، پاپڑ، اچار جیسی اشیاء میں نمک بہت زیادہ ہوتا ہے۔ جب یہ مسلسل کھائی جائیں تو جسمانی نظام متاثر ہوتا ہے۔ نمک کی مقدار کم رکھیں۔ کھانے میں تازہ مصالحے اور جڑی بوٹیاں استعمال کریں۔ نمک کو ضرورت کے مطابق ہی استعمال کریں۔
مدافعتی نظام کی کمزوری اور شوگر
جسم کا مدافعتی نظام اگر کمزور ہو جائے تو شوگر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ خاص طور پر ٹائپ ون ذیابیطس مدافعتی نظام کی خرابی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہ نظام لبلبہ کے انسولین بنانے والے خلیات پر حملہ کرتا ہے۔ ہمیں اپنی قوت مدافعت کو مضبوط بنانا چاہیے۔ وٹامن سی، زنک، اور متوازن خوراک اس میں مدد دیتے ہیں۔ نیند، ورزش، اور ذہنی سکون بھی اہم ہیں۔ مدافعتی نظام کو نظر انداز کرنا بڑی بیماریوں کو دعوت دینا ہے۔
جینیاتی تبدیلیاں اور ماحول
جدید تحقیق کے مطابق کچھ جینیاتی تبدیلیاں شوگر کے خطرات کو بڑھاتی ہیں۔ یہ تبدیلیاں ہمارے ماحول سے بھی متاثر ہوتی ہیں۔ آلودہ فضا، کیمیکل، اور مصنوعی خوراک جینز کو تبدیل کر سکتی ہے۔ یہی تبدیلی انسولین کے عمل کو متاثر کرتی ہے۔ ہم ماحول کی صفائی کا خیال نہیں رکھتے۔ روزانہ کی آلودگی جسم پر اثر ڈالتی ہے۔ اگر ہم قدرتی طرز زندگی اپنائیں، تو جینیاتی تبدیلیوں کے اثرات کم ہو سکتے ہیں۔ قدرتی غذا، صاف پانی، اور صاف ماحول شوگر کے خلاف مددگار ہیں۔
پھر ہم کہتے ہیں کہ شوگر کیوں ہوتی ہے؟ – سکرین ٹائم کا عذاب
ہم دن بھر موبائل یا کمپیوٹر پر لگے رہتے ہیں۔ جسمانی سرگرمی کم ہو جاتی ہے۔ سکرین کی روشنی نیند متاثر کرتی ہے۔ یہ سب شوگر کو جنم دیتا ہے۔ ہم نیند کی کمی اور تھکن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آنکھیں، دماغ اور جسم سب تھک جاتے ہیں۔ انسولین کا نظام سست ہو جاتا ہے۔ سکرین سے دوری، وقفے وقفے سے چہل قدمی، اور نیلی روشنی کو کم کرنا ضروری ہے۔ ہمیں اپنی آنکھوں سے پہلے جسم کی آواز سننی چاہیے۔
انسولین ریزسٹنس – شوگر کی ابتدائی حالت
انسولین ریزسٹنس وہ حالت ہے جب خلیات انسولین پر ردعمل نہیں دیتے۔ گلوکوز خون میں جمع ہونے لگتی ہے۔ یہ شوگر سے پہلے کی کیفیت ہوتی ہے۔ اکثر افراد اس مرحلے کو پہچان نہیں پاتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے۔ مگر اصل میں بیماری شروع ہو چکی ہوتی ہے۔ اس مرحلے پر اگر احتیاط کی جائے تو شوگر سے بچا جا سکتا ہے۔ وزن کم کریں، چینی کم کریں، اور ورزش کا معمول بنائیں۔ یہی احتیاط آگے چل کر فائدہ دیتی ہے۔
پھر ہم کہتے ہیں کہ شوگر کیوں ہوتی ہے؟ – کمزور جگر
جگر جسم کا فلٹر ہے۔ اگر جگر کمزور ہو جائے تو گلوکوز کا توازن متاثر ہوتا ہے۔ شوگر کی سطح کنٹرول سے باہر ہو جاتی ہے۔ ناقص خوراک، شراب نوشی، اور دوا کا زیادہ استعمال جگر کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ہمیں جگر کی حفاظت کرنی چاہیے۔ سبزیاں، پانی، اور نیچرل ڈائیٹ اس میں مدد کرتی ہیں۔ اگر ہم جگر کا خیال نہ رکھیں تو شوگر یقینی ہو سکتی ہے۔ صحت مند جگر، صحت مند انسولین کی ضمانت ہے۔
ناقص نیند اور ہارمونی توازن
نیند کا ہارمونی نظام سے گہرا تعلق ہے۔ کم نیند سے ہارمونز کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ انسولین، کورٹیسول، اور گلوکوز کے ہارمون متاثر ہوتے ہیں۔ یہ شوگر کے خطرات کو بڑھاتے ہیں۔ نیند کو مکمل رکھنا ضروری ہے۔ سات سے آٹھ گھنٹے کی گہری نیند جسم کے لیے دوا ہے۔ ہم نیند کو نظر انداز نہ کریں۔ یہ صرف آرام نہیں، بلکہ شوگر سے بچاؤ کی تدبیر ہے۔
کم پانی، زیادہ بیماری
جسم میں پانی کی کمی نظام ہضم کو متاثر کرتی ہے۔ گردے گلوکوز کو فلٹر نہیں کر پاتے۔ شوگر کی مقدار خون میں بڑھ جاتی ہے۔ پانی جسم کو صاف کرتا ہے۔ ہر عضو کے لیے ضروری ہے۔ ہم پانی کی جگہ چائے، کافی، یا کولڈ ڈرنک پیتے ہیں۔ یہ عمل شوگر کے لیے خطرناک ہے۔ روزانہ آٹھ گلاس پانی صحت مند زندگی کی بنیاد ہے۔
پھر ہم کہتے ہیں کہ شوگر کیوں ہوتی ہے؟ – کھانے کا انداز
کھانے کو جلدی جلدی نگلنا، بغیر چبائے کھانا، یا جذباتی کیفیت میں کھانا شوگر کو بڑھاتا ہے۔ جب کھانا درست انداز میں نہ کھایا جائے تو ہضم نہیں ہوتا۔ انسولین پر دباؤ پڑتا ہے۔ ہمیں کھانے کے دوران سکون رکھنا چاہیے۔ ہر نوالہ آرام سے چبائیں۔ پرسکون ماحول میں کھائیں۔ یہ چھوٹی عادتیں بڑے فرق کا باعث بنتی ہیں۔
لاپرواہی چھوڑیں، شعور اپنائیں
اگر ہم لاپرواہی چھوڑ دیں تو شوگر جیسے مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔ شعور زندگی بدل دیتا ہے۔ اگر ہم وقت پر ٹیسٹ کرائیں، اچھی غذا کھائیں، اور ورزش کریں تو شوگر کو روکا جا سکتا ہے۔ ہم جب کہتے ہیں کہ شوگر کیوں ہو گئی؟ تو ہمیں اپنے عمل پر غور کرنا چاہیے۔ شعور کے بغیر صحت ممکن نہیں۔
خلاصہ
ذیابیطس یا شوگر کوئی اچانک نمودار ہونے والی بیماری نہیں بلکہ یہ برسوں کی غفلت، لاپروائی، اور ناقص طرزِ زندگی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ہم دن رات ایسی عادتیں دہراتے ہیں جو ہمارے انسولین سسٹم کو کمزور کرتی ہیں، اور جب بیماری سامنے آتی ہے تو حیرانی سے کہتے ہیں “پھر ہم کہتے ہیں کہ شوگر کیوں ہوتی ہے؟”۔ سچ تو یہ ہے کہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔ جب ہم وقت پر نہ سوئیں، صحت مند غذا نہ کھائیں، ورزش چھوڑ دیں، اور ذہنی دباؤ کو روز کا معمول بنا لیں، تو شوگر خودبخود ہمارا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے۔
اب وقت ہے شعور اپنانے کا۔ اپنی پلیٹ میں توازن لائیں، پانی کی مقدار بڑھائیں، موبائل اور سکرین ٹائم کم کریں، اور ہر دن میں کم از کم تیس منٹ کا وقت صرف اپنے جسم کے لیے نکالیں۔ نیند کو ترجیح دیں، تعلقات میں سکون پیدا کریں، اور وقت پر اپنا بلڈ شوگر ٹیسٹ کروائیں۔
اگر ہم بیماری سے پہلے اپنے طرز زندگی پر غور کر لیں تو شوگر جیسی بیماری سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ یہ کوئی لا علاج مرض نہیں، مگر احتیاطی تدابیر اور مستقل مزاجی کے بغیر اس پر قابو ممکن نہیں۔ آج سے بہتر فیصلہ کریں، شعور پیدا کریں، اور دوسروں کو بھی اس بیماری سے بچنے کے لیے آگاہ کریں۔
